شاہد رضا نجمی ایک نظر میں
شاہد رضا نجمی ایک نظر میں
نام:
محمد شاہد رضا
والد گرامی:
سراج العلما مولانا سراج القادری بہرائچی۔ آپ ایک نکتہ رس خطیب ، باشعور قلم کار اور بہترین مصنف ہیں۔ مختلف موضوعات پر ۸۰؍ سے زائد کتابیں تصنیف کرچکے ہیں۔
ولادت:
۲۶؍ نومبر ۱۹۹۵ء کو بہرائچ شریف (یوپی -ہند) کے ایک علاقے میں ہوئی۔
ابتدائی تعلیم وتربیت:
والد گرامی کی صحبت میں ہوئی۔
اعلیٰ تعلیم:
(۱) درس نظامی ( از: ۲۰۰۷ء تا ۲۰۱۳ء) جامعہ حرا نجم العلوم ، مہاپولی، بھیونڈی، مہاراشٹرا
(۲) تحقیق فی الافتا (از: ۲۰۱۴ء تا ۲۰۱۶ء) جامعہ حرا نجم العلوم ، مہاپولی، بھیونڈی، مہاراشٹرا
(۳) شعبۂ دعوت وتحقیق- الدبلوم العالی فی الدعوۃ والعلوم الاسلامیۃ (از: ۲۰۱۶ء تا ۲۰۱۸ء) جامعہ عارفیہ، سید سراواں، الہ آباد
(۴) تحقیق فی العلوم الدینیۃ (از: ۲۰۱۸ء تا حال) جامعۃ الازہر، قاہرہ، مصر
مقالات ومضامین:
مختلف موضوعات پر ایک درجن سے مضامین تحریر کرچکے ہیں، جو ملک کے مختلف جرائد ورسائل (ماہنامہ سنی دعوت اسلامی،ممبئی۔ ماہنامہ خضر راہ، الہ آباد۔ روزنامہ ممبئی اردو نیوز۔ روزنامہ صحافت، ممبئی۔ روزنامہ اردو ٹائمز، ممبئی) میں شائع ہوچکے ہیں۔
ترجمہ وتخریج:
(۱) عقیدۃ المحدثین وصلتھم بالتصوف (شیخ اسامہ سید محمود ازہری)، بنام: محدثین کا مسلک ومشرب
(۲) المنقذ من الضلال (امام محمد ابوحامد غزالی)
(۳) الحق المبین علی من تلاعب بالدین (شیخ اسامہ سید محمود ازہری)
متأثر:
شیخ اکبر محی الدین ابن عربی [۵۶۰ھ -۶۲۰ھ] سے آپ کو بڑی عقیدت ہے۔ ابن عربیات کو اپنی تحقیق کا مرکزی عنوان بنائے ہوئے ہیں۔ شیخ ابن عربی کے مختلف رسائل کا ترجمہ اور ابن عربیات کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقی کام کررہے ہیں۔
شعر گوئی:
شعر وسخن سے بڑا شغف ہے۔ خود ایک باذوق شاعر ہیں۔
نعت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
زم وزم وکوثر وتسنیم فدا ہوں جن پر
ہاں! وہی میرے نبی کی ہیں زُلالی آنکھیں
دیکھ کر چہرۂ انور کی حسیں تابش کو
حور وغلمان نے فورا ہی چھپالی آنکھیں
رحمت وبرکت وانوار کا چشمہ پھوٹا
جس طرف بھی اٹھیں آقا کی کمالی آنکھیں
یا نبی! اب تو دکھادو رخِ زیبا اپنا
شوقِ دیدار میں اشکوں سے بھگالی آنکھیں
موت سے کہہ دو کہ آنی ہے تو جلدی آئے
گنبدِ سبز کے جلوؤں میں بسالی آنکھیں
لیلِ اسریٰ جو شہِ دیں کی سواری گزری
ماہ واختر نے سرِ راہ بچھالی آنکھیں
بس یہی ایک ہے نجمیؔ کی تمنا آقا
موت کے وقت نہ ہوں دید سے خالی آنکھیں
معروف عالم دین اور نعت گو شاعر حضرت سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی رحمہ اللہ تعالیٰ کی رحلت پر اشک بار آنکھوں سے لکھی گئی منقبت کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
خانۂ دل تھا منور ان کا عشقِ شاہ سے
عاشقِ شہ بے گماں تھے حضرت نظمی میاں
جو کہا حق ہی کہا، جو بھی لکھا حق ہی لکھا
حق نویس وحق بیاں تھے حضرت نظمی میاں
ظلم اور جبر وتشدد سے بھرے اِس دور میں
اِک صدائے مومناں تھے حضرت نظمی میاں
پارسائی، زہد وتقویٰ، علم وفن، شعر وسخن
اِن میں خود ہی اِک جہاں تھے حضرتِ نظمی میاں
انجمن، بزم ومحافل آج ہیں ماتَم کُناں
جن کے تم روحِ رواں تھے حضرتِ نظمی میاں
بند کر اشکوں کو تو نجمیؔ ہمیں معلوم ہے
تیرا دل اور تیری جاں تھے حضرتِ نظمی میاں
Post a Comment